Zihaal-E-Muskin Songs Lyrics and Detailed explanation
"Zihaal-e-Muskin" is a beautiful and soulful song that has captured the hearts of many. The song comes from the Mughal-E-Azam movie, which was released a long time ago. This song is special because it's sung in a language called Urdu, which is known for its poetic and emotional lyrics.
The song talks about the pain and longing that two lovers feel for each other. It's like a conversation between them, expressing how much they miss each other. The words used in the song are like a painting made with words, showing the emotions and the scenes in a very poetic way.
When you listen to "Zihaal-e-Muskin," you might not understand every word, but you can still feel the emotions because music has a way of touching our hearts. The melody of the song, along with the heartfelt singing, makes it a timeless piece of art that continues to be loved by people even today. So, even if you don't understand all the words, you can still enjoy the feelings and emotions that the song conveys.
Zihaal-E-Muskin in Roman Urdu
Yaad Rakhunga Main Ye Tanhaai Haath Mere
Bewafaai Yaar Mere Sirf Lagi Chaahat Mein
Main Dil Ko Samjhaa Lunga
Main Dil Ko Samjhaa Lunga Tu Khayaal Tera Rakhna
Zihaal-E-Muskin Makun Ba-Ranjish
Bahaale Hijra Bechara Dil Hai
Sunaayi Deti Hai Jiski Dhadkan
Tumhara Dil Ya Hamara Dil Hai
Zihaal-E-Muskin Makun Ba-Ranjish Bahaale Hijra Bechara Dil Hai
Sunaayi Deti Hai Jiski Dhadkan
Tumhara Dil Ya Hamara Dil Hai
Tootey Dil Ko Jodein Kaise
Ye Bataate Jaao
Zinda Rehne Ki Bas Humko Ek Wajah De Jaao
Yun Na Phero Humse Ankhein To Milaate Jaao Koi Waada Kar Jaao Koi Duaa De Jaao
Mere Liye Thodi Si
Mere Liye Thodi Si Dil Mein To Jagah Rakhna
Khushi Tumhaari Hai Jab Isi Mein To Hum Bhi Aasu Chupa Hi Lenge
Wajah Jo Poochega Ye Zamaana Koi Bahaana Bana Hi Lenge
Chaahe Jo Tu Paaye Vo Tu Ye Meri Fariyaad Hai Jeelein Chaahe Tum Bin Yaara Hona To Barbaad Hai Jab Tak Na Mar Jaayein Hum
Us Pal Ka Intzaar Hai Itna Hi Tha Kehna
Takdeer Mein Tera Mera
Takdeer Mein Tera Mera
Ye Saath Yahin Tak Tha
Sunaayi Deti Hai Jiski Dhadkan Tumhara Dil Ya Hamara Dil Hai Sunaayi Deti Hai Jiski Dhadkan Tumhara Dil Ya Hamara Dil Hai
زیحال مسکن
یاد رکھونگا میں یہ تنہائی ہاتھ میرے
بیوفائی یار میرے صرف لگی چاہت میں
میں دِل کو سمجھا لونگا
میں دِل کو سمجھا لونگا تو خیال تیرا رکھنا
زیحال مسکیں مکن برنجش
بحالِ ہجراں بچارہ دل ہے
سنائی دیتی ہے جسکی دھڑکن
تمہارا دِل یا ہمارا دِل ہے
زیحال مسکیں مکن برنجش
بحالِ ہجراں بچارہ دل ہے
سنائی دیتی ہے جسکی دھڑکن
تمہارا دِل یا ہمارا دِل ہے
ٹوٹے دِل کو جوڑیں کیسےیہ بتاتی جاؤ
زندہ رہنے کی بس ہم کو اک وجہ دے جاؤ
یوں نا پھیرو ہم سے آنکھیں تو ملاتی جاؤ
کوئی وعدہ کر جاؤ کوئی دعا دے جاؤ
میرے لیے تھوڑی سی
میرے لیے تھوڑی سی دِل میں تو جگہ رکھنا
خوشی تمھاری ہے جب اسی میں تو ہم بھی آنسو چھپا ہی لینگے
وجہ جو پوچھے گا یہ زمانہ کوئی بہانہ بنا ہی لینگے
چاہے جو تو پائے وہ تو یہ میری فریاد ہے جی لیںنگے چاہے تم بن یارا ہونا تو برباد ہے جب تک نا مر جائیں ہم
اس پل کا انتظار ہے اتنا ہی تھا کہنا
تقدیر میں تیرا میرا
تقدیر میں تیرا میرا
یہ ساتھ یہیں تک تھا
سنائی دیتی ہے جسکی دھڑکن تمہارا دِل یا ہمارا دِل ہے
سنائی دیتی ہے جسکی دھڑکن تمہارا دِل یا ہمارا دِل ہے
Zihaal-E-Muskin Urdu Translation
زیحال مسکیں مکن برنجش
بحالِ ہجراں بچارہ دل ہے
مکن: نہ کرو، مت کرو، رُک جاؤ
بحالِ ہجراں: ہجر کی حالت، ہجر کا مارا، جدائی کا مارا
تشریح:
اس مسکین کے حال پر ترس کھاؤ، رنجش مت بڑھاؤ۔ میرا دل بیچارہ پہلے سے ہجر کے غم سے نڈھال ہے۔
یہ مکمل غزل کی صورت میں تیرھویں صدی عیسوی میں شاعر امیر خسرو نے علاؤالدین خلجی کے دورِ حکومت میں لکھی۔ امیر خسرو کا شمار بر صغیر کے بڑے صوفی شاعروں میں ہوتا ہے۔ امیر خسرو مہا بھارت میں 12 سے 13ویں صدی کے دوران قریب 7 مسلمان حکومتوں کے ساتھ اپنی خدمات دیتے رہے۔ علاؤالدین خلجی کے دورِ حکومت میں آپ کو شاہی صوفی شاعر اور مفکر کا منصب حاصل تھا۔
مندرجہ بالا شعر کے حوالے سے ضروری بات:
امیر خسرو کی غزل اور اس شعر کی شکل و صورت میں آدھے سے زیادہ کا فرق پایا جاتا ہے۔ یہ شعر امیر خسرو کی لکھی غزل کے مشابہہ تو ہے، مگر اصل میں وہ نہیں۔ 1988 میں ایک بھارتی فلم کے گانے کو فلمانے واسطے اس غزل کی مدد لی گئ۔ فلم " غلامی " کے لیے یہ گیت گلزار نے لکھا تھا ۔ گلزار نے امیر خسرو کے پہلے شعر میں تبدیلی کے ساتھ اسے مکھڑا بنایا اور باقی پورا گیت گلزار کے الفاظ میں ہے۔
آج کل اس گانے کو نئے انداز اور ردھم میں گایا گیا ہے جو کہ کافی وائرل ہو رہا ہے۔ مندرجہ ذیل امیر خسرو کی اصل غزل کا پہلا شعر ملاحظہ کریں۔
زیحالِ مسکین مکن تغافل دُرائے نَینا بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں
اس غزل کا ہر مصرع کا آدھا حصہ فارسی اور آدھا اردو میں ہے۔ جیسے :
ز حال مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں
۔ ۔ ۔ یہاں مکن تغافل تک فارسی ہے ۔ ۔ باقی اردو۔ اردو کا یہ انداز اس کا اصل لہجہ نہیں بلکہ پوربی یا اودھی کہلاتا ہے۔
ترجمہ:
(اس غریب کے حال سے تغافل مت برت ،آنکھیں نہ پھیر باتیں بنا کر۔۔۔
میری جاں اب جدائی کی تاب نہیں، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے )!
مکمل کلام
زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جان نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
ترجمہ:
اس غریب کے حال سے تغافل نہ برت، آنکھیں پھیر کر، باتیں بنا کر
اب جدائی کی تاب نہیں مری جان، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
ترجمہ:
جدائی کی راتیں زلف کی مانند دراز اور وصال کے دن عمر کی مانند مختصر
اے دوست! محبوب کو دیکھے بغیر یہ اندھیری راتیں کیوں کر کاٹوں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
ترجمہ:
پلک جھپکتے میں وہ دو ساحر آنکھیں میرے دل کا سکون لے اُڑیں
اب کسے پڑی ہے کہ جا کر ہمارے محبوب کو ہمارا حالِ دل (باتیں) سنائے
چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں
ترجمہ:
میں اس عشق میں جلتی ہوئی شمع کی اور ذرۂ حیراں کی طرح ہمشیہ فریاد کر رہا ہوں
نہ آنکھوں میں نیند، نہ تن کو چین کہ نہ تو وہ خود آتے ہیں اور نہ ہی کوئی پیغام بھیجتے ہیں
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
ترجمہ:
خسرو تو جانتا ہے کس کے ملنے کی امید میں بیٹھا ہے؟ جس کی یاد نے تجھ ہر چیز سے بیگانہ بنا دیا ہے۔۔۔
میرا من اسی کی یادوں میں مست رہتا ہے کہ کوئی یار کا رازداں ملے تو
اسے کہوں کہ میرے محبوب تک میری عرضی پہنچا دینا۔
امیر خسرو