مائے نی مائے! میرے گیتاں دے نیناں وچ برہوں دی رڑک پوے ادھی ادھی راتیں

 کچھ عرصہ پہلے نصرت فتح علی خان کی آواز میں ایک پنجابی گیت سنا تو ہم دیوانے ہو گئے۔ شاعر کا کھوج لگایا تو پتہ چلا کسی شو کمار بٹالوی کا گیت ہے۔ تجسس بڑھا تو شاعری اور شو کمار کی زندگی سے متعلق پڑھا۔

مائے نی مائے!  میرے گیتاں دے نیناں وچ  برہوں دی رڑک پوے  ادھی ادھی راتیں


شو کمار 23 جولائی 1936ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔تقسیم کے بعد بٹالہ ضلع گورداسپور چلے گئے اور شو کمار بٹالوی کہلائے۔ تعلیمی لحاظ سے شو کمار نے کئی ڈگریوں کا آغاز کیا لیکن تکمیل سے قبل ہی خیرباد کہہ دیا۔ وہ کہا کرتے تھے:

"مجھے پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ لوگ مجھ پہ پی ایچ ڈی کریں گے۔" 

 جوانی میں قدم دھرتے ہی مینا نام کی لڑکی سے عشق ہو گیا مگر افسوس کہ وہ لڑکی بے وقت موت کی آغوش میں جا سوئی اور شو کی بے چین طبیعت مزید بے چین ہو گئی۔ ہمیں لگتا ہے کہ "مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ" گیت مینا ہی کی یاد میں تخلیق ہوا تھا۔ شوکمار کی دوسری محبت بھی ناکام رہی اور محبوبہ شادی کر کے امریکہ چلی گئی۔ اس کے پہلے بچے کی پیدائش کی خبر پا کر شو نے یہ گیت تخلیق کیا:

"مائے نی میں اک شکرا یار بنایا" 

آخر شو کمار نے ارونا نامی لڑکی سے شادی کر لی اور تاعمر اس کے ساتھی رہے۔ محبت میں ناکامیوں، کثرتِ شراب نوشی، غربت اور بے جا تنقید کے بعد رہی سہی کسر بیماری نے پوری کر دی۔ بیوی ان کے علاج کے اخراجات برداشت نہ کر پائی تو اسپتال سے گھر منتقل کر دیا جہاں 6 مئی 1973ء کو محض 37 برس کی عمر میں یہ جوہرِ نایاب تو ہمیشہ کے لیے بجھ گیا مگر اس کے گیتوں کی چنگاریاں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں۔ شو کمار نے سب سے چھوٹی عمر میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ حاصل کیا تھا اور ان کی پہلی کتاب "پیڑاں دا پراگا" 1960 میں شائع ہوئی۔ نصرت فتح اور جگجیت سنگھ سمیت بہت سے گلوکاروں نے ان کے لکھے گیت گا کر نام کمایا۔

شو کمار کے سب سے مشہور اور ہمارے پسندیدہ گیت "مائے نی مائے" کا اردو ترجمہ کرنے کی ضرورت ہمیں اس لیے محسوس ہوئی کہ بہت سے الفاظ اجنبی تھے، ترجمہ کیا تو ہم نے اپنے لیے تھا لیکن پھر سوچا شاید اوروں کے لیے بھی کچھ الفاظ اجنبی ہوں اس لیے شئیر کرنے کی جسارت کر رہی ہوں۔ ممکن ہے کسی لفظ کا ترجمہ درست نہ ہوا ہو کیونکہ ہم نے پنجابی کہیں سے باقاعدہ پڑھی نہیں صرف ماں بولی ہے۔

------

مائے نی مائے!

میرے گیتاں دے نیناں وچ

برہوں دی رڑک پوے

ادھی ادھی راتیں

اٹھ رون موئے متراں نوں

مائے سانوں نیند نہ پوے

------

ماں او میری پیاری ماں! 

میرے گیتوں کی آنکھوں میں

جدائی کی چبھن ہے

آدھی آدھی رات کو

جب یہ (گیت) اٹھ کر مر چکے محبوب کو روتے ہیں

تو ماں! ہمیں نیند نہیں آتی۔۔

------

بھیں بھیں، سگندھیاں وچ

بنھاں پھہے چاننی دے

تاں وی ساڈی پیڑ نہ سہوے

کوسے کوسے ساہاں دی

میں کراں جے ٹکور مائے

سگوں سانوں کھان نوں پوے

------

 خوابوں میں بھگو بھگو کر

چاندنی کے پھاہے باندھے

پھر بھی درد کی ٹیسیں کم نہیں ہو رہیں 

گرم گرم سانسوں کی 

اگر میں ٹکور کروں تو ماں! 

یہ درد الٹا مجھے کاٹ کھانے کو لپکتا ہے

------

آپے نی میں بالڑی ہاں

میں حالے آپ متاں جوگی

مت کہڑا ایس نوں دوے؟

آکھ سوں نی مائے ایہنوں

رووے بلھ چتھ کے نی

جگ کتے سن نہ لوے

------

ابھی تو میں خود ننھی سی بچی ہوں 

ابھی تو میں خود نصیحتوں کی حقدار ہوں

(ایسے میں یہ نادان دل) اِسے کون سمجھائے؟ 

ماں! تم ہی اسے کہو نا

کہ روتے وقت ہونٹ چبا چبا کے رویا کرے

کہیں دنیا والے سن نہ لیں

------

آکھ سوں نی کھا لئے ٹک

ہجراں دا پکیا

لیکھاں دے نی پٹھڑے توے

چٹ لئے تریل لونی

غماں دے گلاب توں نی

کالجے نوں حوصلہ رہوے

------

اسے کہو نا کہ ہجر پہ پکی ہوئی روٹی کھا لے

نصیب کے توے تو الٹے پڑے ہیں

غموں کے گلاب سے

نمکین شبنم ہی چاٹ لے

 تاکہ کلیجے کو کچھ حوصلہ رہے۔۔

 

*الٹا توا سوگ اور فاقہ زدگی کی علامت ہے۔

------

کیہڑیاں سپیریاں توں

منگاں کنج میل دی میں

میل دی کوئی کنج دوے

کیہڑا ایہناں دماں دیاں

لوبھیاں دے دراں اتے

وانگ کھڑا جوگیاں رہوے

------

کونسے جوگیوں سے 

وصال کی ڈوری مانگوں

کوئی تو مجھے وصال کی ڈوری دے دے

کون ان ٹوٹتی سانسوں پر 

منکوں سے بنی مالا پکڑے

جوگیوں کی طرح کھڑا رہے

------

پیڑے نی پیڑے

ایہ پیار ایسی تتلی ہے

جہڑی سدا سول تے بہوے

پیار ایسا بھور ہے نی

جہدے کولوں واشنا وی

لکھاں کوہاں دور ہی رہوے


*1کوس=دو میل

------

درد او میرے ضدی درد! 

یہ پیار ایسی تتلی ہے

جو ہمیشہ پھول کی چاہ میں کانٹے پہ بیٹھتی ہے

پیار ایسا بھنورا ہے

جس سے خوشبو بھی

لاکھوں مِیل دور بھاگتی ہے

------

پیار او محل ہے نی

جہدے چ پکھیروواں دے

باجھ کجھ ہور نہ رہوے

پیار ایسا آلھنا ہے

جہدے چ نی وصلاں دا

رتڑا نہ پلنگ ڈہوے

------

پیار وہ محل ہے

جس میں چمگادڑوں کے سوا 

کوئی اور بسیرا نہیں کرتا

پیار ایسا آشیانہ ہے

جس میں ملن کا 

سرخ پلنگ کبھی نہیں بچھتا

------

آکھ مائے، ادھی ادھی راتیں

موئے متراں دے

اُچی اُچی ناں نہ لوے

متے ساڈے مویاں پچھوں

جگ ایہ شریکڑا نی

گیتاں نوں وی چندرا کہوے

------

ماں! اسے سمجھاؤ نا یوں آدھی آدھی رات کو

ہمیشہ کے لیے چلے جانے والوں کا

چیخ چیخ کر نام نہ لے 

کہیں ہمارے مرنے کے بعد

 یہ حاسد زمانے والے

ان (ماتمی) گیتوں کو بھی برا نہ کہیں

------

مائے نی مائے! 

شاعر: شیو کمار بٹالوی

پنجابی سے اردو ترجمہ: اقصٰی گیلانی

Post a Comment

0 Comments